Saturday, December 5, 2015

بابری مسجد کا ملبہ کب تک پڑا رہے گا؟


مدراس ہائی کورٹ نے تمل ناڈو کی ریاستی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ آئندہ برس سے کسی بھی تنظیم کو چھ دسبر کے روز بابری مسجد یا رام مندر کی حمایت یا مخالفت میں کسی طرح کےجلسے جلوس اور مظاہرے کی اجازت نہ دے۔
عدالت عالیہ نے اپنے مشاہدے میں کہا ہے کہ اس طرح کے احتجاجوں اور مظاہروں سے روزمرہ کی زندگی میں رخنہ پڑتا ہے اوراس سےسرکاری اور غیر سرکاری وسائل بھی ضائع ہوتے ہیں۔

بابری مسجد چھ دسمبر سنہ 1992 کو منہدم کی گئی تھی۔ اس کےبعد ہر برس اس روز بابری مسجد کے حمایتی ’یوم سیاہ‘ مناتے رہے ہیں اور اس کی تعمیر نو کے لیے جلسے جلوس اور مظاہرے ہوتے رہے ہیں۔ اسی طرح رام مندر کےحامی بابری مسجد کےمقام پر رام مندر کی تعمیر کے لیے ہر برس مظاہرے کرتے ہیں۔
نوآبادیاتی نظام سے آزادی حاصل کرنے کے بعد 26 جنوری سنہ 1950 کو آزاد بھارت نے ایک نیا آئین اختیارکیا۔ بھارت کو ایک عوامی جمہوری قرار دیا گیا۔
آئین کے نفاذ سے محض ایک مہینے قبل ایودھیا کے کچھ سادھوؤں نے شہر کی 400 برس پرانی بابری مسجد کے منبر پر ہندوؤں کے دیوتا بھگوان رام کی مورتی رکھ دی تھی۔ ریاستی حکومت اور مقامی اتظامیہ نے بجائے مورتی ہٹانے کے مسجد پر تالہ لگا دیا۔
بھارت کے آئین میں ہر شخص کو مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی۔ یہ بات بھی طے پائی کہ 15 اگست سنہ 1947 کو جو عبادت گاہ جس حالت میں تھی اسے جوں کا توں تسلیم کر لیا جائے گا۔ لیکن بابری مسجد کو اس سےالگ رکھا گیا۔ یعنی اسے ایک متنازع عبادت گاہ تسلیم کیا گیا جس کا فیصلہ ہونا تھا کہ اس پرکس کا حق ہے۔
بعض ہندوؤں کا دعوی ہےکہ بھگوان رام اسی مقام پرپیدا ہوئے تھے جہاں بابری مسجد بنی ہوئی تھی۔ ان کے مطابق وہاں ایک مندرتھا جسے بابر نے منہدم کرا کر بابری مسجد بنوا دی۔500 برس پہلے وہاں کیا تھا اور کیا نہیں تھایہ تو ماہرین آثار قدیمہ اور مورخین ہی بتا سکتے ہیں۔ لیکن پچھلے100 برس سے بابری مسجد بھارت میں مذہب اور نفرت کی سیاست کا محور بنی رہی ہے۔

بابری مسجد ڈھائی جا چکی ہے لیکن اس کے ملبے پر نفرت کی سیاست اب بھی جاری ہے۔ آزاد بھارت کی تاریخ میں ہندوؤں اورمسلمانوں کےدرمیان کسی اور ایشو نے ایسی خلیج اور اختلاف نہیں پیدا کیا جیسا بابری - رام مندر کےتنازع نے کیا ہے۔ بھارتی ریپبلک بابری کے ملبے کا ابھی تک یر غمال بنا ہوا ہے۔
بھارتی خطے میں یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا جب ایک مذہبی گروپ کی عبادت گاہ کو دوسری مذہبی گروپ کے ہجوم نے زمین دوز کر دیا ہو۔ ماضی میں مقامی حکمراں ایک دوسرے کے خطے پر حملوں میں عبادت گاہوں کو بھی تباہ کرتے تھے۔
بودھ مت کےزوال کےبعد ہندو راجاؤں نے بودھ بھکشوؤوں اوران کی عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بنایا تھا۔ ایران، افغانستان اور وسطی ایشیا سے آنے والے مسلم حلہ آور اور لٹیرے لوٹ ماراور غارت گری کے ساتھ ساتھ ہندو مندروں کو بھی اکثر نشانہ بناتے تھے۔
تقسیم ہند کےوقت صدیوں سے ایک ساتھ رہنےوالے ہندوؤں، سکھوں اور مسلمانوں نے ایک دوسرے کی ہزاروں عبادت گاہیں ہی نہیں تباہ کی تھیں، انھوں نے قتل وغارت گری کی ایسی خونریز تاریخ مرتب کی تھی کہ انسانیت اپنےآپ سے شرمسار رہے گی۔

جمہوری بھارت میں بابری مسجد کا انہدام ریاست کی پستی اور لاقانونیت کی فتح کی عکاس ہے۔ جس ریپبلک نے 1947 کی مذہبی جنونیت کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے تھے وہ ریپبلک ہجومی سیاست کےسامنے بے بس نظر آیا۔ یہ بھارتی آئیڈیل، بھارت کی تہذیبی اورانسانی اقدار اور آئین کی شکست تھی۔
بابری مسجدگذشتہ ایک طویل عرصے سے جنوبی ایشیا میں مذہبی نفرت اور سیاست کا محور بنی ہوئی ہے۔ بھارت ایک کھلا اور آئینی معاشرہ ہے۔ ملک کا آئین بھارت کےعوام کے اجتما‏عی شعور کا عکاس ہے۔ موجودہ دور میں مذاہب پر کسی گروپ تنظیم یا مخصوص فرقے کی اجارہ داری نہیں ہو سکتی۔ تروپتی، تاج محل اور ایودھیا بلا تفریق مذہب و ملت ہر بھارتی کی میراث ہیں۔
صدیوں کی کشمکش کے بعد بھارت ایک بہتر مستقبل کی دہلیز پر ہے۔ سوا ارب انسان ماضی کے کھنڈروں کے کب تک یر غمال بنےرہیں گے؟ ان کھنڈروں کے ملبوں اور ان سے وابستہ مذہب کی سیاست کو اب بہت گہرائی میں دفن کردینے کی ضرورت ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ملک کےسیکولر عوام اجتماعی طور پر بابری مسجد کے متنازع مقام کو کسی حتمی فیصلے کے لیے ریاست کے حوالےکر دیں اور ریاست سے یہ عزم لیں کہ مستقبل میں اس ملک میں مذہب کے نام پر پھر کبھی کوئی سیاست نہیں ہو گی اور مذہب کےنام پرانسانوں کو ذبح نہیں کیا جائے گا۔

عمران فاروق قتل کیس: ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین پر قتل کا مقدمہ

پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے کی مدعیت میں عمران فاروق قتل کیس میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین سمیت سات افراد پر قتل کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے کے انسداد دہشت گردی ونگ کی جانب سے درج کرائے گئے مقدمے میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کے علاوہ رابطہ کمیٹی کے رکن محمد انور، افتخار حسین، معظم علی ضان، خالد شمیم، کاشف خان اور محمد علی کے نام شامل ہیں۔
خیال رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے سینیئر رہنما اور سابق رکن پارلیمان عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن میں قتل کر دیا گیا تھا۔
سینچر کو وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے بتایا گیا کہ ان افراد پر عمران فاروق کے قتل کے سازش تیار کرنے، قتل میں معاونت کرنے اور قتل کی دفعات 302، 109، 120 بی اور سات اے ٹی سی کے تحت درج کیا گیا ہے۔
وزارت داخلہ کے مطابق ان افراد میں سے پاکستان میں سے زیرحراست افراد کو اب برطانیہ کے حوالے نہیں کیا جائے گا جبکہ دیگر ملزمان کو برطانیہ سے یہاں لانے کی کوشش کی جائے گی۔


خیال رہے کہ پاکستان اور برطانیہ کے مابین ملزموں کے تبادلے کے حوالے سے کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے۔
تاہم وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ پاکستان اور برطانیہ دہشت گردی کے خلاف ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ اس مقدمے میں تین افراد پاکستان کے قانون نافد کرنے والےاداروں کی تحویل میں ہیں جن میں معظم علی، محسن علی اور خالد شمیم شامل ہیں۔
چند روز قبل وزیر داخلہ چوہدری نثار علح خان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’حقائق اور جے آئی ٹی کی تفتیشی رپورٹ کی روشنی میں وزارتِ داخلہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس کیس کی باقاعدہ ایف آئی آر پاکستان میں درج کی جائے۔‘
’ہم نے برطانیہ سے مکمل انیٹیلیجنس اور دوسری معلومات شیئر کیں، ہماری سکیورٹی ایجنسیز کے کنٹرول میں جو بھی اس کے مجرم ہماری سکیورٹی ایجنسیز کے کنٹرول میں تھے ان تک رسائی دی گئی‘

Sunday, November 29, 2015

Friday, November 27, 2015

aseefa bhutto and me visits residence of Shaheed Pilot Marium Mukhtiar


aseefa bhutto and me visits residence of Shaheed Pilot Marium Mukhtiar




Met with family they raised an amazing woman she is an inspiration to women and girls across Pakistan. I salute Marium

Tuesday, November 17, 2015

my mother is passed away

Syeda Rubab Fatima, mother of Sindh Assembly Deputy Speaker Syeda Shehla Raza, passed away on Monday.

She was 80 years old and died after a brief illness, according to a spokesperson.

Her funeral prayers would be held on Tuesday, 4:00pm, at Masjid Khair-ul-Amal, Imambarghah Shuhada-e-Karbala, Federal B Area, Incholi.

Tuesday, September 1, 2015

پلیز شیر ضرور کیجیۓ گا

                                                                   پلیز شیر ضرور کیجیۓ گ

Saturday, August 29, 2015

مجھے پتا ہے اس پوسٹ سے مجھ سے میری پارٹی ناراض ہوگی پر یہ ہے حقیقت ہے نفیسہ شاہ 

                                                               

Monday, August 24, 2015

share your problems with me

mohtarma benazir bhutto young  at 70 Clifton (1976)

meri khoobsurat leader jaisa koe nahi , jab meri life se mere bachy chaly gae thy tab mujhe shaheed rani ne sambhala tha par jab wo khud mujhe chor gae tab main bhi mar jaati lekin shaheed rani ka mission poora karna tha , main apni poori koshish karti hun ke muj se jo ho sakta hai main is awaam ke liye karun lekin kisi party main bhi sab ki soch ek jaisi nahi hoti masly chalty rehty hain  mujhe log aksar msg karty hain apni problems share karty hain main un ke msg bhi read karti hun kafi logo ke Facebook or twitter se Maine problems solved kiye hain insha ALLAH jo mere haath main hai jo main kar sakti hun karti rahun gi  aap logo ki tanqeed jaaez hai main apny colleague ministers tak aap ke messages  forward karti rehti hun mujhe umeed hai aagy bhi aap log mujhe msg or apni problems share karty rahe Thanks  

Saturday, August 22, 2015

ایاز صادق کا انتخاب کالعدم، این اے 122 میں دوبارہ الیکشن کا حکم

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں قائم الیکشن ٹربیونل نے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے انتخاب کو کالعدم قرار دیتے ہوئے حلقہ این اے 122 میں دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم دیا ہے۔
مئی 2013 میں ہونے والے انتخابات میں اس حلقے میں حکمران جماعت مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے ایاز صادق نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو شکست دی تھی۔
تاہم عمران خان نے الیکشن ٹربیونل میں اس نتیجے کے خلاف انتخابی عذرداری دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ حلقہ این اے 122 میں انتخابات کے دوران دھاندلی ہوئی ہے لہذا سردار ایاز صادق کو نااہل قرار دیا جائے۔
الیکشن ٹربیونل کی جانب سے انتخابی عذرداری پر سماعت دو سال تک جاری رہی تھی جس کے بعد سنیچر کو مختصر فیصلے میں ٹربیونل نے این اے 122 اور اس کے ذیلی صوبائی حلقے پی پی 147 میں انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا۔
پی پی 147 سے بھی مسلم لیگ نواز کے ہی امیدوار شجاع صدیقی الیکشن میں کامیاب ہوئے تھے۔
فیصلہ سنانے کے موقع پر پنجاب الیکشن کمیشن کے دفتر کی حدود میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے تاہم جب پاکستان تحریک انصاف اور حکمراں جماعت مسلم لیگ نون کے حامیوں کی بڑی تعداد وہاں جمع ہو کر رکاوٹیں عبور کر کے اندر پہنچ گئی تو حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے پولیس کی اضافی نفری طلب کرنی پڑی۔
اس فیصلے کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے عمران خان کے وکیل انیس ہاشمی کا کہنا تھا مختصر فیصلے میں ان کے موکل کے موقف کی تائید ہوئی ہے اور الیکشن ٹربیونل نے ایاز صادق کو ڈی سیٹ کردیا ہے جس کے بعد وہ اب ایوانِ زیریں کے سپیکر نہیں رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کے بعد ایاز صادق کی جانب سے بطور سپیکر گذشتہ دو برس کے دوران دی جانے والی رولنگز پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
اس موقع پر ایاز صادق کے وکیل کا کہنا تھا کہ ایاز صادق کی رکنیت کالعدم قرار دیے جانے کی وجہ الیکشن کمیشن کے حکام کی بے ضابطگیوں کو قرار دیا گیا ہے اور عمران خان کا یہ دعویٰ کہ نتائج میں ردوبدل کیا گیا ہے ثابت نہیں ہو سکا۔ 
فیصلے کے بعد ایاز صادق نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کی جو کاپی مجھے ملی ہے اس میں کہیں بھی دھاندلی کا ذکر نہیں کیا گیا اور اس میں نہ تو ذمہ داری مجھ پہ ڈالی گئی ہے نہ ہی عمران خان پر بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ الیکشن مشینری اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔‘
ایاز صادق نے کہا کہ وہ اس فیصلے کا احترام کرتے ہیں اور تسلیم بھی کرتے ہیں لیکن جو تحفظات ہیں ان کی وجہ سے وہ سپریم کورٹ جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے وزیر اعظم نواز شریف سے اس فیصلے کے بعد پارٹی کا لائحہ عمل جاننے کے لیے رابطہ کیا تھا جس کا جواب انھیں یہ ملا ہے کہ ’ہم اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان میں جا کر الیکشن مشینری کی ذمہ داری جو اس الیکشن کے نتیجے پر ڈالی گئی ہے اسے چیلنج کریں گے۔‘
عمران خان کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ’یہ ہار جیت تو نہیں ہوئی۔ میں صرف یہ بات کروں گا کہ یہ تکنیکی مسئلہ ہے، سیاسی مسئلہ نہیں رہا۔‘

کب کیا ہوا

  • لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے نومبر 2013 میں ایاز صادق کے حق میں حکمِ امتناعی جاری کیے جانے کے بعد عمران خان کی اس پٹیشن پر کارروائی ایک سال تک معطل رہی۔
  • ہائی کورٹ نے 20 نومبر 2014 کو حکمِ امتناع واپس لیتے ہوئے ٹربیونل کو کارروائی جاری رکھنے کی اجازت دی۔
  • نومبر 2014 میں عمران خان نے الیکشن ٹریبونل کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کروایا اور کہا دھاندلی کے تمام ثبوت ووٹوں والے بیگوں میں موجود ہیں اُن کو کھولا جائے تو سب سامنے آ جائےگا کہ حلقہ میں کس حد تک دھاندلی ہوئی۔
  • الیکشن ٹربیونل نے دسمبر 2014 کو ووٹوں کے تھیلے کھولنے اور اُن کی جانچ پڑتال کا حکم دیا تھا۔
  • جنوری 2015 میں مبینہ دھاندلی کیس میں ووٹوں کی جانچ پڑتال کرنے والے لوکل کمیشن کے جج غلام حسین اعوان نے کہا کہ کوئی جعلی ووٹ نہیں نکلا البتہ اِنتخابی بےضابطگیاں پائی گئی ہیں۔
  • مارچ 2015 میں ٹربیونل نے حلقہ میں ڈالے گے تمام ووٹوں کی تصدیق نادرا سے کروانے کا حکم دیا۔
  • مئی 2015 میں نادرا نے ووٹوں پر انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کے حوالے سے تقریباً 800 صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ الیکشن ٹربیونل کے دفتر میں جمع کروائی تھی۔
  • 17 اگست کو ٹربیونل نے فریقین کے وکلا کی جانب سے حتمی دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

Thursday, August 20, 2015

SHC seeks report from CDGK on children's killing November 6, 2005

KARACHI: Justice Faisal Arab of the Sindh High Court directed the City District Government Karachi (CDGK) on Monday to furnish within two weeks a copy of an inquiry's report into an accident that took place in November last year in which two children died after the taxi they were travelling sunk in an open drain.
The plaintiffs impleaded the CDGK, Karachi Water & Sewerage Board (KWSB), M/s Al-Mehran Builders, contractor supervisors Waqar Awan, Faisal, Fahad and taxi owner Merajuddin and driver Rasheed Ahmad and submitted that on November 6, 2005 they hired a taxi and got into it along with their two children Shayan, aged 11 years, and Ukse Batool, aged 13 years, for Sohrab Goth. They said when the taxi reached opposite Memon Bara Market on Abul Hasan Isphahani Road, at about 7:40 p.m., the taxi driver was unable to see the open drain in the dark due to a lack of any warning sign or safety measures, and the car fell into the 28-feet deep sewerage drain. The children died in the accident.