پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں قائم الیکشن ٹربیونل نے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے انتخاب کو کالعدم قرار دیتے ہوئے حلقہ این اے 122 میں دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم دیا ہے۔
مئی 2013 میں ہونے والے انتخابات میں اس حلقے میں حکمران جماعت مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے ایاز صادق نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو شکست دی تھی۔
تاہم عمران خان نے الیکشن ٹربیونل میں اس نتیجے کے خلاف انتخابی عذرداری دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ حلقہ این اے 122 میں انتخابات کے دوران دھاندلی ہوئی ہے لہذا سردار ایاز صادق کو نااہل قرار دیا جائے۔
الیکشن ٹربیونل کی جانب سے انتخابی عذرداری پر سماعت دو سال تک جاری رہی تھی جس کے بعد سنیچر کو مختصر فیصلے میں ٹربیونل نے این اے 122 اور اس کے ذیلی صوبائی حلقے پی پی 147 میں انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا۔
پی پی 147 سے بھی مسلم لیگ نواز کے ہی امیدوار شجاع صدیقی الیکشن میں کامیاب ہوئے تھے۔
فیصلہ سنانے کے موقع پر پنجاب الیکشن کمیشن کے دفتر کی حدود میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے تاہم جب پاکستان تحریک انصاف اور حکمراں جماعت مسلم لیگ نون کے حامیوں کی بڑی تعداد وہاں جمع ہو کر رکاوٹیں عبور کر کے اندر پہنچ گئی تو حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے پولیس کی اضافی نفری طلب کرنی پڑی۔
اس فیصلے کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے عمران خان کے وکیل انیس ہاشمی کا کہنا تھا مختصر فیصلے میں ان کے موکل کے موقف کی تائید ہوئی ہے اور الیکشن ٹربیونل نے ایاز صادق کو ڈی سیٹ کردیا ہے جس کے بعد وہ اب ایوانِ زیریں کے سپیکر نہیں رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کے بعد ایاز صادق کی جانب سے بطور سپیکر گذشتہ دو برس کے دوران دی جانے والی رولنگز پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
اس موقع پر ایاز صادق کے وکیل کا کہنا تھا کہ ایاز صادق کی رکنیت کالعدم قرار دیے جانے کی وجہ الیکشن کمیشن کے حکام کی بے ضابطگیوں کو قرار دیا گیا ہے اور عمران خان کا یہ دعویٰ کہ نتائج میں ردوبدل کیا گیا ہے ثابت نہیں ہو سکا۔
فیصلے کے بعد ایاز صادق نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کی جو کاپی مجھے ملی ہے اس میں کہیں بھی دھاندلی کا ذکر نہیں کیا گیا اور اس میں نہ تو ذمہ داری مجھ پہ ڈالی گئی ہے نہ ہی عمران خان پر بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ الیکشن مشینری اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔‘
ایاز صادق نے کہا کہ وہ اس فیصلے کا احترام کرتے ہیں اور تسلیم بھی کرتے ہیں لیکن جو تحفظات ہیں ان کی وجہ سے وہ سپریم کورٹ جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے وزیر اعظم نواز شریف سے اس فیصلے کے بعد پارٹی کا لائحہ عمل جاننے کے لیے رابطہ کیا تھا جس کا جواب انھیں یہ ملا ہے کہ ’ہم اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان میں جا کر الیکشن مشینری کی ذمہ داری جو اس الیکشن کے نتیجے پر ڈالی گئی ہے اسے چیلنج کریں گے۔‘
عمران خان کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ’یہ ہار جیت تو نہیں ہوئی۔ میں صرف یہ بات کروں گا کہ یہ تکنیکی مسئلہ ہے، سیاسی مسئلہ نہیں رہا۔‘
کب کیا ہوا
- لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے نومبر 2013 میں ایاز صادق کے حق میں حکمِ امتناعی جاری کیے جانے کے بعد عمران خان کی اس پٹیشن پر کارروائی ایک سال تک معطل رہی۔
- ہائی کورٹ نے 20 نومبر 2014 کو حکمِ امتناع واپس لیتے ہوئے ٹربیونل کو کارروائی جاری رکھنے کی اجازت دی۔
- نومبر 2014 میں عمران خان نے الیکشن ٹریبونل کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کروایا اور کہا دھاندلی کے تمام ثبوت ووٹوں والے بیگوں میں موجود ہیں اُن کو کھولا جائے تو سب سامنے آ جائےگا کہ حلقہ میں کس حد تک دھاندلی ہوئی۔
- الیکشن ٹربیونل نے دسمبر 2014 کو ووٹوں کے تھیلے کھولنے اور اُن کی جانچ پڑتال کا حکم دیا تھا۔
- جنوری 2015 میں مبینہ دھاندلی کیس میں ووٹوں کی جانچ پڑتال کرنے والے لوکل کمیشن کے جج غلام حسین اعوان نے کہا کہ کوئی جعلی ووٹ نہیں نکلا البتہ اِنتخابی بےضابطگیاں پائی گئی ہیں۔
- مارچ 2015 میں ٹربیونل نے حلقہ میں ڈالے گے تمام ووٹوں کی تصدیق نادرا سے کروانے کا حکم دیا۔
- مئی 2015 میں نادرا نے ووٹوں پر انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کے حوالے سے تقریباً 800 صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ الیکشن ٹربیونل کے دفتر میں جمع کروائی تھی۔
- 17 اگست کو ٹربیونل نے فریقین کے وکلا کی جانب سے حتمی دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
No comments:
Post a Comment